اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فلسطین میں غیر قانونی اسرائیلی
بستیوں کو ختم کرنے اور وہاں جاری دیگر تعمیراتی سرگرمیوں کو فوری طور پر
بند کرنے سے متعلق قرارداد منظور کئے جانے کی مخالفت میں اسرائیل نے آج کہا
کہ اس کی طرف سے 2017 میں اقوام متحدہ کو ملنے والی مالی امداد میں 60
لاکھ ڈالر تک کی کٹوتی کی جائے گی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی
ڈینن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی
اقتصادی مدد کرنا غیر اخلاقی ہوگا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مشن نے کہا
کہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے صدر کے طور پر حلف لینے کے بعد اقوام متحدہ میں
اسرائیل مخالف سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے مزید سخت قدم اٹھائے جائیں گے۔
اسرائیلی مشن نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ان اداروں کی مالی مدد مکمل بند کی
جائے گی جو ان کے بقول اسرائیل مخالف ہیں۔ ان اداروں میں فلسطینی عوام کے
لازمی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی اور فلسطینی حقوق ڈویژن شامل ہے۔ فلسطینی اراضی پر اسرائیل کی غیر قانونی تعمیرات کو بند کرنے سے متعلق
اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر 15 رکنی سلامتی کونسل میں 23 دسمبر کو
ووٹنگ
ہوئی تھی، جس میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا تھا۔ قرارداد کے حق میں 14 ووٹ
پڑے تھے جبکہ ایک رکن کے طور پر امریکہ نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ مصر نے اس
قرارداد کا مسودہ تیار کیا تھا لیکن اسرائیل نے ٹرمپ سے اس معاملے میں
مداخلت کرنے کو کہا جس کے بعد اس مسودہ قرارداد کو مصر کی طرف سے واپس لے
لیا گیا تھا، لیکن ملیشیا، نیوزی لینڈ، سینیگال اور کولمبیا نے دوبارہ اس
قرارداد کو آگے بڑھا دیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ
ٹرمپ نے امریکی حکومت سے اس قرارداد پر ویٹو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
فلسطین کے لوگ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے، غزہ
اور مشرقی يروشلم کو ملا کر ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے
ہیں۔ اقوام متحدہ کے علاوہ زیادہ تر ممالک کا یہ موقف ہے کہ فلسطین میں
اسرائیلی بستیاں غیر قانونی اور امن و استحکام کے لئے رکاوٹ ہیں۔ واضح رہے
کہ 2014 میں امریکہ کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات
کرانے کی کوشش ناکام رہی تھی۔ اس معاملے پر سلامتی کونسل کی جانب سے 1979
میں پہلی بار قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا تھا۔